ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ملکی خبریں / شامی اپوزیشن کے اعلیٰ ترین مذاکرات کار علوش مستعفی

شامی اپوزیشن کے اعلیٰ ترین مذاکرات کار علوش مستعفی

Mon, 30 May 2016 16:53:55  SO Admin   INS India/SO news

دمشق،30مئی(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا)شامی اپوزیشن کے اعلیٰ ترین مذاکرات کار محمد علوش اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ ان کے بقول جنیوا امن مذاکرات کا تعطل کا شکار سلسلہ نہ تو ملک میں قیام امن ممکن بنا سکا ہے اور نہ ہی وہاں انسانی المیے کو ختم کر سکا ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ محمد علوش نے کہا کہ جنیوا امن مذاکرات کے تحت شام میں قیام امن کی کوششوں کی ناکامی کی وجہ سے انہوں نے استعفیٰ دیا ہے۔یک اہم باغی گروہ جیش الاسلام کے رکن اور سعودی عرب کی حمایت یافتہ اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی کے اس سربراہ نے کہا کہ امن مذاکرات سے نہ تو امن کوششیں کامیاب ہوئی ہیں اور نہ ہی ہزاروں قیدیوں کی رہائی ممکن ہو سکی ہے۔اس مذاکراتی عمل کے تین ادوار کے بعد بھی شام میں خانہ جنگی کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا۔ اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی اس امن عمل کی سست روی پر پہلے بھی تحفظات کا اظہار کر چکی تھی۔اتوار انتیس مئی کو رات گئے علوش نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ جنیوا مذاکرات کی ناکامی کے باعث شامی حکومت بڑی ہٹ دھرمی کے ساتھ ملک بھر میں بمباری اور جارحیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔علوش نے بین الاقوامی برادری کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ شام میں انسانی المیے کے خاتمے کے لیے کوئی خاص کوششیں نہیں کر سکی۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ تو شورش زدہ علاقوں میں محصور لوگوں کو نکالا جا سکا اور نہ ہی ان کے لیے مناسب امداد کو ممکن بنایا جا سکا ہے۔ علوش کے مطابق فائربندی کی ڈیل پر عملدرآمد میں ناکامی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔شامی حکومت اور شام میں سرگرم اعتدال پسند باغیوں کے مابین رواں برس فروری میں ایک جنگ بندی وقفے پر اتفاق رائے ہوا تھا۔ تاہم اس معاہدے پر مؤثر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے امن مذاکرات تعطل کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ دوسری طرف شامی باشندے بھی تاحال شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ محمد علوش نے کہا، مذاکرات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شامی باشندوں کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ہے۔
علوش نے اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ کے طور پر اس کمیٹی سے الگ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شامی بحران کے حل کی کوششوں میں ناکامی کے باعث وہ مزید اس عہدے پر فائز نہیں رہ سکتے۔ جنیوا امن مذاکرات کا آخری دور اپریل میں منعقد ہوا تھا تاہم شام میں مسلسل لڑائی کی وجہ سے اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی نے اس دور کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔عالمی طاقتوں کی کوشش ہے کہ شام کا بحران امن مذاکرات سے حل کر لیا جائے لیکن اس تناظر میں روس اور امریکا کے مابین اختلافات بھی ایک رکاوٹ قرار دیے جا رہے ہیں۔
سفارتی ذرائع کے مطابق اس مذاکراتی عمل کا آئندہ دور مئی ہی میں منعقد کیا جائے گا لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی تاریخ طے نہیں کی جا سکی اور مئی کا مہینہ ختم ہونے میں بھی بمشکل دو دن باقی رہ گئے ہیں۔ شام کے لیے اقوام متحدہ کے مندوب اسٹیفان ڈے مستورا نے حال ہی میں کہا تھا کہ وہ آئندہ چند ہفتوں تک ان مذاکرات کے انعقاد کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔سفارتی ذرائع کے مطابق اگر شام میں لڑائی کا سلسلہ نہیں تھمتا اور ضرورت مند شہریوں کو فوری امداد نہیں پہنچائی جاتی، تو شامی اپوزیشن آئندہ مذاکراتی عمل میں بھی شرکت نہیں کرے گی۔اس پورے تنازعے میں شامی صدر بشار الاسد کا مستقبل بھی ایک اہم وجہ اختلاف ہے۔ شامی حکومت کا کہنا ہے کہ اسد کو اقتدار سے الگ کرنے پر مذاکرات نہیں کیے جا سکتے۔ دوسری طرف امریکا، سعودی عرب اور شامی باغیوں کا کہنا ہے کہ اسد کوصدارتی عہدہ چھوڑنا ہی ہو گا۔


Share: